یارب
ہے بخش دینا ،
بندے کو کام
تیرا
محروم
رہ نہ جائے کل
یہ غلام تیرا
جب
تک ہے دل بغل
میں ہردم ہویا
د تیر ی
جب
تک زباں ہومنھ
میں ، جاری
ہونام تیرا
ہے
توہی دینے
والا پستی سے
دے بلندی
اسفل
مقام میرا ،
اعلی مقام
تیرا
بے
چوں وبے چگوں
ہے ، بے شبہ
ذات تیری
واحد
احد ، صمد ہے ،
اللہ نام تیرا
محروم
کیوں رہوں میں
، جی بھر کے
کیوں نہ لو ں میں
دیتا
ہے رزق سب کو
،ہے فیض عام
تیرا
یہ
داغؔ بھی نہ
ہوگا تیرے
سواکسی کا
کو
نین میں ہے
جوکچھ
، وہ ہے تما م
تیرا
نواب مرزاخاں داغؔ دہلوی

ولادت 1831وفات 1905
داغؔ کی
پیدائش دلی
میں ہوئی ۔ وہ
ابھی نو عمر
تھے کہ ان کے
والد لوہا رو
کے نواب شمس
الدین احمد
خاں کا انتقال
ہوگیا ۔ ان کی
والدہ نے
بہادرشاہ
ظفرؔکےبیٹے اور
دلی عہد سلطنت
فخر الملک
مرزامحمد
سلطان عرف
مرزافخرو سے شادی
کرلی۔ داغؔ کی
تعلیم وتربیت
لال قلعے میں
ہوئی شاعری
میں وہ ذوقؔ
کے شاگر دتھے
۔ 1857 ء کے
ہنگامے کے بعد
داغؔ رامپور
چلے گئے جہاں
وہ نواب کلب
علی خاں کے
دربار میں
ملازم رہے۔ 1886ءمیں
نواب صاحب کے
انتقال کے بعد
وہ حیدر
آباد چلے گئے
۔ نظام
حیدرآباد نے
انھیں شاعر ی
میں اپنا
استادمقررکرلیا۔
ان کا انتقال
کے بعد وہ حید
رآباد میں ہوا
۔
داغؔ کی
شاعر ی ہلکے
پھلکے عشقیہ
جذبات کا بیان
ہے۔ ان کی
زبان دلی کی
ٹکسالی زبان
ہے جو نہایت
صاف و سلیس ہے
۔ ان کے اشعار
میں روانی اس
قدر ہے کہ
محسوس ہوتا ہے
شاعر نے کسی
کو شش یا فکر
کے بغیر برشعر
کہہ دیے ہیں ۔
یہاں ان کی
حمد شامل نصاب
ہے۔